Impressions of Europe
تاثرات سفر یورپ Translated by: Daniel Majchrowicz. Original language: UrduDorchester, England
1930
Dorchester is a town about 120 miles from London with a population of about ten thousand. The market is small, but everything one needs is readily available. The streets are paved. Small the market may be, but it is clean and the shops are organized the same way that English shops in Hindustan are.
The house that we rented is some distance from the commercial district of the city. It is surrounded by many others, each lined up the one after the other and extending along the roads in all four directions. There are often multiple homes in a single building. It seems surprising that so many homes can fit into a single building, but when you enter one you find it to be very well appointed, with three or four bedrooms, a drawing room, dining room, kitchen, pantry – that is, a space to store the cooking pots – a few rooms to keep the beds and bedding, and a store for coal. Houses are often built with three or four stories so that all the required amenities can fit onto a small patch of land….
***
This evening, Lady sahiba had to go out for a dinner, and I was starting to feel unwell myself. I was planning to go and lay down when Kunwar Pratap Bikram Shah came to tell me that the princess had a complaint against me: it has been so many days, and yet I had not informed her of my arrival. She asked me to come and have lunch with her. We reminisced about Lucknow and Sangha’i until 10 pm, after which, Kunwar sahib took his leave.
May 3rd, 1924: Lady sahiba is also going out for lunch. Sir Krishna sahib and I went to the princess’s residence. She lives in St. James, which is an enclosed area with a number of small, beautiful houses equipped with every possible comfort and available for rent. It has its own servants. Residences like this are called “serviced flats.” Food is not included in the rent, but you may pay for it to be delivered to you. You may also eat in the attached restaurant.
Kunwar sahib let us in. Rani sahiba of Pratapgarh was also there. We were all happy to see one another. We all recalled how pleasant life in India was. Here, every task must be done at its time, whether you want to do it then or not. Punctuality is, naturally, an invaluable thing, but we are not quite so accustomed to such insistent demands on our time…
10اپریل 24ء
ساڑھے نو بجے ہوٹل سے روانہ ہوئے۔ سٹیشن پرمسز لانگ ملیں وہ اپنی ماں کو دیکھنے سنگاپورجانے والی ہیں۔ چاہتی ہیں کہ جانے سے قبل پھر ہم لوگوں سے ملیں۔ میں نے کہا کہ انشا اللہ ہم پھر جلد لندن آئیں گے۔ ساڑھے دس بجے ریل چُھوٹی۔ ابرباد پیشتر ہی سے تھا۔ اب ترشح ہونے لگا، تھوڑی دیر میں غور سے دیکھا تومعلوم ہواکہ روئی کی طرح سفید بوندیاں گررہی ہیں۔ ’’صاحب‘‘ نے کہا کہ یہ برف ہے میں نے گرتے ہوئے بھی نہیں دیکھی۔ اس لئےبہت شوق سے دیکھ رہی ہوں۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ روئی کے گالے بن کر زمین پر جمنےلگے۔ مکانوں کی چھتیں،کھیت اور میدان سفید لباس میں ملبوس ہوگئے۔ کس قدر خوبصورت منظر ہے۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ وہ دیکھئے ایک راہ گیر جارہا ہےجس کو برف نے سر سے پیر تک ڈھانپ لیاہے مگر یہ لوگ برف بارے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ بدستور اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک گھنٹہ برابر یہی حالت رہی۔ درخت ،باغ، ٹیلے سب سفید ہوگئے ’’میرے تینوں لڑکےکلفٹن کالج میں زیرتعلیم ہیں۔ بڑے کا نام علی بہادر حبیب اللہ، منجھلے کا عنایت حبیب اللہ اور چھوٹے کا اشاعت حبیب اللہ ہے۔‘‘ آج گاڑی بھی اتفاقاً آدھ گھنٹہ لیٹ ہے۔ گھڑی دیکھ دیکھ کروقت کاٹ رہی ہوں۔ خدا خدا کرکےدو بجےگاڑی ڈارچسٹر کےسٹیشن پررکی۔ لڑکے معہ اپنی گارجین (اتالیق) مسٹر مسز ہریسن کے سٹیشن پرموجودتھے مجھے دیکھ کر لپٹ گئے اپنی بہن کو گود میں اٹھا لیا اور بہت پیارکیا۔ وہ ڈیڑھ سال کی تھی جب ان بچوں نے ہندوستان چھوڑا تھا۔ یہ لوگ کل ہی اپنے سکول سے ایسٹر کی تعطیل منانے یہاں آئے ہیں۔ خدا کا شکر ہے میں نے ان سب کو بہت بشاش اور تندرست پایا۔ مجھے ان کا یہ کہنا کبھی نہ بھولے گاکہ پیاری ممی آپ تو ہمارے لئے خواب ہوگئیں، علی بہادر کا قد ماشااللہ بڑھ گیا ہے۔ اس کی شکل میںبھی تغیر پاتی ہوں۔ عنایت اور اشاعت بڑھے توہیں لیکن صورت میں بالکل فرق نہیں۔ میرے ایک عزیز سال گزشتہ انگلستان آئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ بچے اردو بھول گئےہیں اس لئے میں نےقصد کرلیا ہے کہ اپنے قیام انگلستان کے زمانہ میں ان سے اردو ہی بولوں گی۔ سٹیشن پرزیادہ بات چیت کاموقع نہیں ملا۔ مدتوں کے بعد میں اپنے پیارے بچوں کو لےکر موٹر پر سوارہوئی۔ مسٹر ہیریسن نےہمارے لئے مکان کا انتظام کر رکھا ہے۔ لڑکے ڈارسٹ میں رہتے ہیں جو یہاں سے نزدیک ہے۔ سٹیشن سے ہم لوگ سیدھے اسی مکان میں آئے۔ بچوںنے کھانے وغیرہ کا انتظام کر رکھا تھا۔ مگر مجھے تو اس وقت نہ بھوک ہے نہ پیاس۔ مدت کے بعداپنے جگر پاروں کو دیکھا تو آنکھوں سے خوشی و مسرت کے آنسو بار بار جاری ہو جاتے ہیں۔ اےپروردگار تیرا شکر کس زبان سے اداکروں کہ تو نے مجھے بخیر و عافیت ان سب کو دکھا دیا۔ تو ہی غریب الوطنی میں ان کا حافظ و نگہبان تھااور تیرا ہی آسراو بھروسہ ان کی جدائی میں مجھے تسکین بخشتارہا۔ یہ دیکھ کر اوربھی خوشی ہو ئی کہ لڑکے اردوبالکل اسی طرح بولتے ہیں جیسے کہ ہندوستان میں بولتے تھے۔ مجھ سےکہا کہ آپ نےانگلستان کو تھوڑابہت دیکھ ہی لیا مگر ہمارا خیال ہے کہ وہ خوبصورت مناظر جو ہندوستان میں نظر آجاتے ہیں اس سرزمین کومیسر نہیں یہاں کی ہر چیز میں اس قدر یکسانیت ہے کہ اس کے دیکھنے میں لطف نہیں آتا فرداً فرداً اپنے اعزاو احباب اور جاننے والوں کے حالات دریافت کرتے رہے۔ لکھنو کا گلی کوچہ ایک چیز کو بھی نہیں بھولے۔ مذہبی عقائد خدا کے فیض سے صحیح وپختہ ہیں۔ نماز کو سمجھ کر پڑھنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس کے معنی اردو میں بتائے ووکنگ میں لکھوں گی قرآن شریف کا جو ترجمہ انگریزی میں ہوا ہے بھیج دیں کیونکہ میرے خیال میں نماز اور کلام الٰہی کو رسماً پڑھنا بدعت ہے۔ یہ کتاب انسانوں کی رہنمائی کے لئے مفصل احکامات کے ساتھ نازل ہوئی اگرہم اس کا مطلب ہی نہ سمجھ سکیں تو کس طرح ہدایت حاصل کرسکتے ہیں؟ مسلمانوں کی پستی کا یہی سبب ہے۔ سات بجے شام تک تینوں لڑکے میرے پاس رہے شب کو مسٹر ہیریسن کے یہاں چلے گئے۔ دارچسٹر لندن سے بیس میل پر ایک قصبہ ہے۔ تقریباً دس ہزار کی آبادی ہوگی چھوٹا سا بازار بھی ہے۔ ضروریات کی سب چیزیں مل جاتی ہیں پختہ سڑکیں ہیں بازار گو چھوٹا ہے مگر بہت صاف ستھرا اسی طریقہ کی دکانیں ہیں جیسی انگریزوں کی ہندوستان میں ہیں ہم نے ایک مکان کرایہ پر لیا ہے کاروباری آبادی کا حصہ یہاں سے کسی قدر دور ہے ہمارے مکان سے بنے ہوئے بہت سے مکانات ایک ہی قطار میں ہیں۔ اسی طرح ہر چہار طرف سڑکیں بیچ میں چھوڑ کرمکانوں کا سلسلہ دور تک چلا گیا ہے ۔اکثر ایک عمارت میں متعدد مکانات ہیں۔ باہر سے دیکھنے سے تعجب ہوتا ہے کہ ایسی چھوٹی سی عمارت میں اتنے مکان کیونکر ہوں گے۔ اندر جا کے دیکھو تو ہر مکان اچھا خاصا سجا ہے۔ تین چار بیڈروم، ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم، باورچی خانہ، پنیسٹری یعنی برتن وغیرہ رکھنے کی جگہ کاٹ کباڑ کوئلہ ررکھنے کو دو تین کوٹھڑیاں وجہ یہ ہے کہ یہاں سہ منزلہ اور چھ منزلہ مکان بنانے کا دستور ہے۔ اس لئے مختصر حصہ زمین پر معمولی آرام کا مکان بھی بہ آسانی بن جاتا ہے اور پچاس ساٹھ فٹ کی لمبائی اور بیس منٹ کی چوڑائی میں پورامکان اورشیشہ کے دو برآمدے جن کو گرین ہائوس کہتے ہیں اور پھر پھول اورگملے رکھنےکے کام میں لائے جاتے ہیں۔ نہایت فراغت سے تیار ہوجاتے ہیں۔ یورپ کےباشندوں کو ایشیا کی طرح بڑی زمین اور کشادہ احاطے تو عموماً میسر ہیں انہیں گر سبزہ اور پھول لگانے کا اس قدر شوق ہے کہ مکان کے گرداگرد گز بھر چوڑا ان کا بھی احاطہ ہے تو وہ بھی سبز گھاس اور رنگ برنگ کے پھولوں سے ڈھکا ہوا دو چار فٹ زمین مل گئی تو لان ضرور ہو ہمارے مکان سے چار قدم کے فاصلہ پر پبلک گارڈن ہےیہاں صبح و شام قصبہ کے لوگ آ کر جمع ہوتے ہیں ٹینس اورکرکٹ کے لان بھی اس میں ہیں۔ چھوٹے بچوں کو ہوا خوری کے لئے لاتے ہیں کبھی کبھی بینڈ باجا ہوتا ہے اکثر میں اپنے بچوں کے ساتھ تازہ ہوا کے خیال سے وہاں جا کر بیٹھاکرتی ہوں۔ افسوس ہے کہ میں اپنے روزنامچہ کو یہاں تاریخ وار نہیں لکھ سکی بچوں کے ساتھ دن بھرمصروف رہتی ہوں ہاں تو باوجودیکہ ایک مکان دوسرے سے بھڑا ہوا بنا ہے مگرمعلوم ہی نہیںہوتا کہ اس میں انسان بستے ہیں ہر وقت سناٹے کاعالم ہے۔ دروازے بندہیں یااللہ یہ کس طرح زندگی بسر کرتے ہوں گے ہماری مالکہ مکان نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے خانگی معاملات سے بالکل بے خبر رہتے ہیں اپنی عمر میں ایک پڑوسن کے گھرصرف ایک مرتبہ گئی ہوں وہ بھی موتے میں اس لئے کہ اس کا کوئی عزیزوہاں موجود نہ تھاصبح کو سودے والے مثلاً دودھ مکھن روٹی مچھلی گوشت گاڑیوں پرلاتے ہیں انہو ںنے گھنٹی بجائی تب دروازہ کھلا چیزیں لیں اور پھر بند کرلیا۔ ہمارے تینوں بچے صبح نوبجے آتے ہیں۔ دن بھر ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور شام کو ڈارچیسٹر جویہاں سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پرہے، چلے جاتے ہیں۔ ان کی گارجین وہیں رہتے ہیں جو ایک چھوٹا ساگائوں ہے۔ صرف پچاس ساٹھ مکانوں کی آبادی ہے۔ مسٹر ہیریسن کے مکان کےسامنے کھلا میدان اور سبزہ زار ہے بچے چار سال سے چھٹیوں کےزمانے میں یہاں رہنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس مقام کو پسند کرتے ہیں۔ کھلی اور تازہ ہوا کے لحاظ سے صحت مند بھی ہے۔ مسٹر ہیریسن نے ایک روز چائے پرہمیں بلایا۔ ان کی لڑکی جونی تزئین سے سن میں کچھ چھوٹی ہے مگر ماشااللہ اس قدرموٹی تازی ہے کہ میں نے چاہا گود میں اٹھائوں مگراس کے جسم میں معلوم ہوتا ہےپارہ پلایا ہواہے مجھ سے نہ اٹھ سکی۔ انہوں نے اپناباغ اور مکان دکھایا ہمرے بچوں کےرہنے کے دو کمرے ہیں جن کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے سجایا ہے۔ سارے خاندان کی تصویریں جو گھر سے لٹکاتے رہے جمع ہیں۔ مسٹر ہیریسن کے بھائی کے پاس ایک بڑی سی گھوڑا گاڑی ہے جس کو ’’کارواں‘‘ کہتے ہیں یہ گویاایک چھوٹا سا مکان ہے جس میں دو سفری پلنگ، اسٹوپ یعنی لوہے کا چولہا، کھانے اور چائے کے برتن رکھنے کی جگہ، نہانے کا ٹب، بچے کا جھولا جس پر رات کو وہ سوبھی سکتا ہے ۔۔۔۔رکھنےکے لئے ایک جگہ علیحدہ غرض کہ ضرورت کی سب چیزیں اس گاڑی میں مہیا ہیں جس جگہ چاہو گاڑی کھڑی کر دو اور گھر کی طرح آرام سے 14گھوڑے اس گاڑی کو چلا سکتے ہیں۔ یہاں اس طرح کی موٹریں بھی ہیں جن میں اس سے زیادہ آدمی اور سامان رہ سکتا ہے۔ چلتے وقت مسز ہیریسن نے اپنے باغ سے بہت سے پھول توڑ کر ہمیں دیئے۔ نرگس کے پھول ان کے یہاں بہت قسموں کے ہیں ایک روز ہمارے ساتھ سیرکو گئے یہ قصبہ سمندر کے کنارے آباد اور بہت خوبصورت ہے تین طرف سے پہاڑیوں سےگھرا ہواہےبیچ میں سمندر سامنے قیطہ کی شاندار عمارتیں کنارے کی ڈھلوان پہاڑی پرکسی نے گھوڑوںاور مختلف قسم کے جانوروں کی تصویریں پتھروں کو جمع کرکے اسطرح بنا دی ہیں کہ ان پر سبزہ نہیں جمتا۔ سبزپہاڑ پر جیسے۔۔۔۔ پڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں غروب آفتاب کا منظر یہاں بہت دلکش ہوتاہے۔ مچھلیاں خصوصاً سول ایک قسم کی مچھلی یہاں کی مشہور ہے۔ یہ مقام ڈارسٹ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ مسٹر ہیریسن کا خاندان بھی ہمارے ساتھ ہے۔ تزئین اور جونی سمندر کے کنارے دیر تک کھیلتی رہیں چھوٹے بچوں کا مجمع ہے جھولے پڑے ہوئے ہیں بعض جھول رہے ہیں اوربعض ننگے پائوں بالو میں لوٹ رہے ہیں ہمارے یہاں مٹی میں بچوںکا کھیلنااور ننگے پیر دوڑنا معیوب سمجھاجاتاہے اور یہاں اس طرح یہ مضبوط بنائے جاتے ہیں جس طر ح ان کے کھانے پینے اور سونے کا وقت مقرر ہے اسی طرح کھیلنا کودنا بچوں کی ضروریات زندگی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن سے اس قدر مضبوط اور تندرست ہوتے ہیں ہم لوگ بھی بالو کے بسترے پر جا کر بیٹھتے اور بچوں کے ساتھ کھیلتے اور ان کا تماشا دیکھتے ہیں۔ ٹاکو ڈیرا ایک ریستوران ہے لڑکوں نےتعریف کی کہ یہاں کی گریوی یعنی سالن ہندوستان کے سالن سے بہتر ہوتا ہے۔ ہم سب وہیں لنچ کھانے گئے۔ بیچارے لڑکوں نے بہت دن سے ہندوستانی کھانا نہیں کھایا اس لئےیہی غنیمت معلوم ہوا مجھے توبالکل نہ بھایا لنچ کے بعد خریداری کے لئے گئے من جملہ اور چیزوں کے مجھے ایک چھوٹا کوٹ خریدنا تھا۔ کئی دکانیں دیکھیں مگر جس رنگ کا میں چاہتی تھی، نہ ملا۔ یہاں دکان کی نوکرانیاں (شاپ گرلز) نہایت مہذب اور جفاکش ہیں اور اپنی ان انگریزنیوں سےجوہندوستان کی انگریزی دکانوں پرکام کرتی ہیں، تہذیب و شائستگی میں درجہا بہتر ہیں۔ میں نے ایک دکان پر سینکڑوں کوٹ دیکھے اور وہ برابر لا لاکر دکھاتی رہیں۔ کوشش کرتی رہی جورنگ میں چاہتی تھی وہی مل جائے اس میں اس کوبہت محنت کرنا پڑی لیکن شروع سے آخر تک دلچسپی سے دکھاتی رہی۔ اسٹین آئے ایک دس بارہ برس کی لڑکی نے عجیب طرز کےبال بنائے تھے سارے بال پیچھے سے اٹھا کر اس طرح سر پر جمائے ہیں کہ سیدھے کھڑے ہیں گویا سر پر مور پنکھی آگئی ہے۔ کبھی ٹوپی نہ پہن سکتی ہوگی مجھے توبہت بدنما معلوم ہوئے سر کو پھیرنے میں تکلیف ہے کہیں بال جھک نہ جائیں مسز ہیریسن بھی تعجب کرتی ہیں کہ اس میں کون سی خوبصورتی پیدا ہوگئی کہ جس سے یہ تکلیف دہ وضع اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ لڑکے ہمیں پہنچانے ڈارچسٹر تک آئے ایسٹر کی چھٹیوںمیں محمود میاں آنے والے ہیں انہوں نے موٹرسائیکل خریدی ہے اس پرسفر کرنے کاشوق ہے۔ لکھا ہےریل سے نہ آئیں گے مجھے فکر تھی کہ آج کل چھٹیوں کا زمانہ ہے راستے میں موٹرگاڑیوں کی کثرت ہوگی اکثرحادثات کی خبریں اخباروں میں دیکھنے میں آتی ہیں۔ موٹرسائیکل پر انہیں اتنی دور کا سفر نہیں کرنا چاہئے تھامگر خداکا شکر ہے کہ وہ اٹھارہ اپریل کو بخیریت ہمارے گھر پہنچے۔ لڑکے انہیں دیکھ کربہت مسرور ہوئے۔ مدت کے بعد یہ آپس میں ملے۔محمود میاں آٹھ دن ہمارے ساتھ رہے اور یہ وقت بہت خوشی سے گزرا۔ یہ سب بچے ساتھ مل کرعید منانے اور ووکنگ مسجد میں نماز پڑھنے کے بہت خواہشمند ہیں۔ صدرالدین صاحب کو لکھ کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ عید کے زمانے میں محمود میاں کا سکول کھل جائے گا بہت افسوس ہوا یہ بچے صبح سے شام تک ہنسی کھیل میں اپنا وقت گزارتے، کبھی گالف کھیلتے ہیں کبھی ویلمتھ اور بونتھ کی سیرکو یااپنے دوستوں کے یہاں چائے پر جاتے ہیں۔ ہمارے یہاںآنے سےپیشر محمود میاں نے جنرل ڈیکن کےیہاں جانے کا وعدہ کرلیا ہے اس لئے وہ یہاں زیادہ نہیں رہیں گے۔ اٹھائیس کو مسز ہیریسن نے ہمیں بلایا کہ جونی کی سالگرہ ہے لڑکوں کا اصرارہے کہ تزئین کو ہندوستانی کپڑے پہنائوں۔ علی بہادر نے خود بیٹھ کر اس کے بال بنائے، زیور پہنایا۔ بہن کو ساڑھی پہنے ہوئے دیکھ کر پھولے نہیں سمائے۔ کہتے ہیں ممی یہ خوبصورت معلوم ہوتی ہے ہمیشہ ایسے ہی کپڑے پہنایا کیجئے۔ ہم موٹر پر میگٹن گئے یہاں بہت سے مہمان جمع تھے تزئین کا زیور اور لباس سب کے لئےتماشا ہو گیاایک میم صاحبہ نے کہا کہ تمہاری لڑکی نے میرےدل میں گھر کرلیا ہے۔ دل نہیں چاہتا کہ اس پر سے آنکھ ہٹائوں انگریز کیسے اچھے لہجہ سےبولتی ہے۔ خدا نظربد سے بچائے۔ یہ لڑکی جہاں جاتی ہے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ چائے کے بعد گانا اوربچوں کے کھیل ہوئے بڑے بوڑھے سب ان کھیلوں میں شریک تھے۔ یہ لوگ بھی کیا زندہ دل ہیں سات بجے شام کو ہم اپنے گھر واپس آئے دیر ہوگئی تھی اس لئے بچے ساتھ نہیں آئے ۔ 2مئی کو لیڈی امام نے اپے گھر لندن میں عید کرنے کوبلایا ہے۔ 4مئی کو عید ہوگی لڑکوںکوعید کے کپڑے سلوانے کی خوشی ہے صبح کو آتے ہی دکان پرجاکر کپڑا پسند کیا اور جلد تیار کرنے کا حکم دیاہے عرصہ کےبعد بیچاروں کو ہمارے ساتھ عید کرنا نصیب ہوگی۔ اس کی خوشی میں ہم سب تاریخ مقررہ پر نوبجے صبح کو ڈارچسٹر سے روانہ ہوئے ہم پہلی مرتبہ جب اس راستے سے گزرے تھے تو برف پڑ رہی تھی آج مطلع صاف ہے سٹین کاکارخانہ پھول اور تخم کےلئے مشہور ہے کس خوبصورتی اورسلیقہ کے ساتھ اس باغ کےپھولوں کی چمن بندی ہوئی ہےراستہ تیزی سے گزرگیا نظر کو اشتیاق باقی رہ گیا۔ ریڈنگ ایک بڑا شہر معلوم ہوتاہے آبادی بہت گنجان ہے ہنٹلی پامر کے بسکٹوں کابہت بڑا کارخانہ یہیں ہے جس کی عمارت کا سلسلہ دور تک ہے۔ ایک پورامحلہ آباد معلوم ہوتاہے۔ بارہ بجے ٹرین لندن کے وکٹوریہ سٹیشن پر ٹھہری سر علی امام کے سیکرٹری ملےاورہمارے ساتھ 92نمبر چیشم پلیس مکان پرپہنچے درازہ یہاں کے دستورکے مطابق بند گھنٹی بجائی ایک دربان نے آ کر دروازہ کھولا سر علی امام بہت تپاک سے ملے۔ وہ اس وقت کہیں جارہے ہیں۔ کہا کہ مجھے بہت ضروری کام ہے۔ آپ کا گھر ہے بھاوج آپ کی موجود ہیں۔ لیڈی صاحبہ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی عرصہ کے بعد ہندوستانی عزیز سے ملے انہوں نے اوپر بھیجاکہ ہمارے رہنے کاکمرہ بتایا لنچ کھانے گئے تو یہاں سرکرشنا گپتا سر علی کے دو صاحبزادے اوربہت سے لوگ تھے یہ صاحبزادے 14سال سے یہاں تعلیم کی غرض سے ہیں بڑے کی تعلیم ختم ہو چکی وہ ایک سال کے واسطے ہندوستان گئے تھے پھرواپس آگئے اس وقت جوباتیں ان سے ہوئیں اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ جو صاحب ہندوستان ہو آئے ہیں انہیں انگلش طرز ِزندگی پسند ہے کہتے ہیں کہ ہندوستان کی گرمی ناقابل برداشت ہے۔ دوسرے یہ کہ ایک وسیع الخیال شخص کو یہ یقین کرنا کہ ایک خاص مقام اس کا وطن ہے زیبا نہیں دنیا انسان کےواسطے بنی ہے اس لئے ساراجہان اس کا وطن ہے ۔ خدا ایسا کرتاکہ سب انسان آپ کے خیال کے جیسے ہو جاتے تو ملکی غیرملکی اور رنگ روپ کا جھگڑا باقی نہ رہتا۔ اسی مسئلہ پر تو آئے دن زور آزمائیاں ہواکرتی ہیں۔ اکثر خون ریزی کی نوبت آ جاتی ہے مگر طے نہیں ہوتا ہم نے کہا کہ یہی صحیح ہے کہ ہندوستان کی گرمی یورپ کے رہنے والوں کے لئے ناقابل برداشت ہے لیکن یہ خوبی ہے کہ جس آب و ہوا میں رہنا چاہے وہ میسر ہو گرمیاں پہاڑ پر گزار دیئے معتدل آب و ہوا کے مقامات کی ضرورت ہو تو ایسے بہت سے مقامات ہیں کشمیر میں سری نگر جہاں چاہے جایئے مگر ان کو ہماری رائے سے اتفاق نہیں ہوا۔ دوسرے بھائی جو ابھی زیرتعلیم ہیں وہ ہندوستان کے ثنا خوان ہیں۔ جب ہم کھانےسے فارغ ہوئے ڈرائنگ روم میں آئے تو انہوں نےہندوستان کے تیر تہوار رسم و رواج کے متعلق بہت سے سوالات کئے اور پھر اپنا بچپن کا زمانہ جب فوق البھڑک کپڑے پہننے کو ملتے تھے یاد کرکے بہت محظوظ ہوئے پھر ہندوستان کے تیوپاروں کاتذکرہ آیا اس سلسلہ میں وہ کہنے لگے کہ یہاں کے ایسٹراگ کے….. معنی میری سمجھ میں نہ آتے ہیں۔ میں خیال کرتا ہوں کہ اگرہندوستان میں وہ برائیاں ہوں گی جومیرے بھائی بیان کرتے ہیں تو بھی ہمیں انگلستان میں راحت نہیں مل سکتی۔ اس لئے کہ ہم یہاں ہمیشہ پردیسی اوراجنبی رہیں گے جس کا ثبوت ہمیں اس برتائو سے ملتا ہے کہ یہاں کے لوگ ہمارے ساتھ کرتے رہتے ہیں اس قسم کی باتیں دیر تک رہیں پھر لیڈی صاحبہ نےکہا کہ اوپر چل کر آرام کرو وہ اپنے کمرے میں لے گئیں جہاں ان کی ایک رشتہ کی بہن کچھ خانہ داری کے کاموں میں مصروف تھیں۔ یہ بیوی انگلستان کی زندگی سے بہت نالاں ہیں۔ روزہ نماز طہارت میں فرق اور تکلف بتاتی ہیں بیچاری بہت سیدھی اور نیک طینت معلوم ہوتی ہیں۔ اس گھر میں آ کر میں بالکل بھول گئی کہ انگلستان میں ہوں درجنوں ہندوستانی نوکر ہندوستانی کھانا، ہنسی مذاق بے تکلفی مکان بھی ہندوستان کے کے محل کی طرح وسیع جس میں بائیس بیڈ روم علاوہ ڈرائنگ روم وغیرہ کے چاردن میں یہاں رہی یہ وقت نہایت لطف سے گزرا چارہی دن گزرے لیکن گلوں میں ہم رہے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ہماری دوست پرنسیز کاقیام کہیں نزدیک ہے خیا ل ہوا کہ کل ان سے ملوں گی۔ بچوں کو عید میں بلانے کےمتعلق ’’صاحب‘‘ اور سر امام میں مشورہ ہوا سرعلی رائے نہیں ہے کہ بچے ووکنگ جائیں خواجہ کمال الدین صاحب وہاں نہیں ہیں میں کچھ کہہ بھی نہ سکی مگراس فیصلہ کو سن کر صدمہ ہوامعلوم نہیں اپنی زندگی میں ان کے ساتھ پھر عید کرسکوں گی یا نہیں۔ بچوں نےکس خوشی سےعید کےکپڑے بنائے تھے اور کس قدر خوش تھے کہ میرے ساتھ ووکنگ میں جا کر نماز پڑھیں گے ’’صاحب‘‘ کہتے ہیں کہ تمہاری خوشی ہے تو لندن میں بلا دوں مگر یہ مصلحت کے خلاف ہے میں کیونکر کہوںگی کہ تم عید کی نماز پڑھنے نہ جائو عذر گناہ بدتر ازگناہ دل پرپتھررکھ کر خاموش ہورہی شب کو لیڈی صاحبہ کا کھانا باہر تھا میری طبیعت بھی بدمزہ ہو رہی تھی چاہتی تھی کہ کھانا کھاکر لیٹ جائوں اتنے میں کنور پرتاب بکرم شاہ آگئے اور کہا کہ پرنسز کو آپ سےشکایت ہے اتنا وقت گزر گیا آپ نے اپنے آنے کی اطلاع ہی نہ دی کل ہمارے ساتھ آکر لنچ کھائے دس بجے تک سنگھائی لکھنو، اِدھر اُدھر کے تذکرے رہے۔ اس کے بعد کنور صاحب رخصت ہوئے۔
3مئی 24لیڈی صاحبہ بھی باہر لنچ پر جارہی ہیں۔ سرکرشنا صاحب اور میں پرنسز کی قیامگاہ پرپہنچے۔ سینٹ جیمس اس کا نام ہے۔ یہاں کا احاطہ ہے جس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے خوبصورت مکانات جو کہ کل سامان سے آراستہ ہیں کرایہ پرملتے ہیں اور وہیں کے نوکر کام کرتے ہیں۔ ایسے قیام گاہوں کو سروس فلیٹ کہتے ہیں۔ ان کےکرایہ میں کھانا وغیرہ شامل نہیں ہے مگر قیمت دے کر اپنے کمروں میں منگوا سکتے ہیں۔ یااس عمارت سے متعلق ایک ریسٹورنٹ ہے وہاں جاکر کھاسکتے ہیں۔ کنور صاحب ہمیں اندر لےگئے۔ رانی صاحبہ پرتاب گڑھ بھی یہیں ہیں۔ ہم سب آپس میں ملکر بہت خوش ہوئے۔ ہندوستان کی عیش کی زندگی ہم سب کو یادآتی ہے۔ وقت کی پابندی پر ہر کام کرنا ہے دل چاہے یا نہ چاہے۔ پابندی وقت تو بیش بہا شے ہے لیکن ہم اس کےاس حد تک عادی نہیں کہ تکلیف ہوتی ہے۔ ورزش و ہواخوری کو دل چاہے تو پبلک گارڈن میں جائے۔ مکانوں میں عموماً صحن تک نہیں ہوتے دراصل وہ آرام جو ہم وہاں کچھ روپوں میں حاصل کرسکتے ہیں یہاں سینکڑوں میں بھی ممکن نہیں اور کھانا تو میرے خیال میں ہر ہندوستانی میں انگریزی ہی کھانے کی عادی تھی لیکن سچ کہوں یہاں آ کر تو اس سے نفرت ہوگئی عموماً برائے نام آگ دکھا دیتے ہیںبعض مرتبہ گوشت کاٹتے تو اس سےخون نکل آتاہے جس کو رسیلا کہہ کر شوق سے کھاتے ہیں خیر تو ہم سب ریسٹورنٹ میں لنج کھانے گئے بہت سی میزیں لگی تیں مگر اس وقت تک لوگ زیادہ نہیں آئے تھے۔ ہندوستانی پارٹی کو وہ تعجب کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ان کا نظریں جماکر دیکھنا مجھے سخت ناگوار ہوتا ہےشاید وہ کچھ ہمیںعجیب چیز سمجھ کر اس قدر غور سے دیکھتے ہیں ورنہ یوںدیکھنا تو انگریزی تہذیب کے بہت خلاف ہے۔ میں نے پرنسز سے کہاکہ شاید یہاں کی عورتیں آپ کے حسن کا اپنے حسن سے مقابلہ کر رہی ہیں۔